Skip to main content

Hazrat Pir Mian Mirza Abdul Rasheed Sahib

کیاں شریف کے سجادہ نشین دوم/ خواجہ کیانویؒ کے فرزند/ خواجہ موہڑویؒ کے داماد شیرِ کرناہ حضرت میاں مرزا عبد الرشید کیانوی معروف بہ میاں مرزا صاحب رحمۃ اللہ علیہ

آپ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کیانویؒ کے فرزندِ اصغر تھے۔ آپ کی ولادت 1950 بکرمی بمطابق 1893ء کو کیاں شریف میں ہوئی۔ بچپن میں آپ کے والد ماجد نے آپ کو خصوصی روحانی فیوض سے نوازا۔ آپ کی عمر 8 برس کے قریب ہوئی تو خواجہ کیانویؒ کا وصال ہو گیا، سو آپ کی تربیت کی ذمہ داری والدہ ماجدہ اور برادر اکبر حضرت میاں محمد طاسین کیانویؒ کے سپرد ہوئی۔ 

بچپن سے ہی آپ پر مجذوبیت کے آثار واضح تھے۔ آپ کے بچپن کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایبٹ آباد کا ایک شخص کسی مقدمے میں بری طرح پھنس گیا جسے خلاصی کی کوئی صورت دکھائی نہ دیتی تھی، ایک رات وہ پریشانی کے عالم میں سویا تو خواب دیکھا کہ ایک بچہ کہہ رہا ہے کہ تو مقدمہ سے بری ہو جائے گا۔ میرے لیے ایک کنگھی، ایک شیشہ اور تیل لے کر کیاں شریف آ جا۔ وہ شخص مذکورہ  اشیاء لے کر کیاں شریف پہنچا تو آپ کو دیکھ کر پہچان لیا۔ اس نے وہ اشیاء آپ کے سپرد کیں اور قدرت الہی سے وہ شخص مقدمہ میں بری ہو گیا۔

آپ کا نکاح خواجہ محمد قاسم صادق موہڑوی رحمتہ اللہ علیہ کی صاحبزادی سے ہوا اس طرح آپ خواجہ موہڑوی رحمتہ اللہ علیہ کے داماد تھے۔ خواجہ موہڑوی رحمتہ اللہ علیہ کی صاحبزادی جب کیاں شریف تشریف لائیں تو ان کے لئے ایک خوبصورت بنگلہ تعمیر کیا گیا جس پر لکڑی سے کشیدہ کاری کی گئی۔ اس کی تصاویر زیر نظر البم میں شامل ہیں۔ 

1922ء میں آپ کے برادر اکبر خواجہ میاں محمد طاسین کیانویؒ کا وصال ہوا تو آپ کیاں شریف کی سجادگی کے منصب پر فائز ہوئے۔ فرائضِ سجادگی ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اہل علاقہ کی فلاح و بہبود کےکام بھی سرانجام دیتے رہے۔ اپنی انتظامی صلاحیتوں اور دینی خدمات کی بدولت مشترکہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے ممبر بھی نامزد ہوئے۔ 3، 4 جنوری 1947ء کو کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاستی انتخابات کروائے۔ اس وقت ریاستی اسمبلی کی 75 نشستیں تھیں، جن میں سے 40 پر براہ راست انتخاب ہوا اور بقیہ 35 پر کشمیر کے اہم طبقات کی شخصیات کو ممبر نامزد کیا گیا۔ ان نشستوں میں لار شریف کے سجادہ نشین حضرت میاں نظام الدین لارویؒ کی نامزدگی بھی عمل میں آئی۔ 1 مارچ 1947ء کو مہاراجہ ہری سنگھ کی منظوری اور وزیر اعظم رام چند کاک کے دستخطوں سے آپ کی نامزدگی کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔ ممبر نامزد ہونے پر آپ نے ریاستی عہدیداروں سے اصرار کیا کہ کیاں شریف کے سجادہ نشین حضرت میاں مرزا صاحب بھی وسیع دینی خدمات کی حامل شخصیت ہیں اس لئے انہیں بھی اسمبلی کا ممبر نامزد کیا جائے، چنانچہ میاں مرزا صاحب بھی مشترکہ کشمیر کی اسمبلی کے ممبر مقرر ہو گئے۔ ان دونوں شخصیات کے ممبر اسمبلی بننے سے وادیء کشمیر میں پھیلے ہوئے کیاں شریف، لار شریف اور موہڑہ شریف کے ارادت مندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، لوگوں نے مجالس منعقد کر کے خوشی کا اظہار کیا۔ 

2 اپریل 1947ء کو حضرت میاں مرزا صاحب کیاں شریف سے لار شریف تشریف لے گئے اور وہاں سے حضرت میاں بشیر صاحب لاروی کو ہمراہ لے کر سرینگر روانہ ہوئے۔ سرینگر میں ریاستی وزیر اعظم رام چند کاک نے میاں مرزا صاحب کی دعوت کی، میاں بشیر صاحب لاروی بھی اس دعوت میں آپ کے ساتھ شریک ہوئے۔ میاں مرزا صاحب نے اس ملاقات کے دوران پونچھ کے حلقہء انتخابات میں دو برادریوں کے درمیان ہونے والی ایک بدمزگی کے بارے میں وزیر اعظم نے آپ سے بات کی اور آپ سے درخواست کی میاں بشیر صاحب لاروی کو صلح کے لئے پونچھ بھیجا جائے، جس پر آپ نے فرمایا:

دربار کیاں شریف اور دربار عالیہ لار شریف کے سجادہ نشینوں نے ہمیشہ برادریوں کے تضاد سے اوپر اٹھ کر عوام کو روحانیت سے سرفراز کیا ہے۔ اس لئے میاں بشیر احمد یقیناََ پونچھ کی گجر اور دیگر اقوام میں بہتر دوستانہ ماحول پیدا کر سکتے ہیں۔۔۔چنانچہ آپ نے میاں بشیر صاحب کو پونچھ جانے کی ہدایت کی۔

مئی 1947ء میں جب ریاستی دربار جموں منتقل ہوا تو حضرت میاں مرزا صاحب اور میاں نظام الدین لاروی بھی اکٹھے جموں منتقل ہو گئے اور اکٹھے ریاستی امور سر انجام دینے  گے۔ اسی دوران تاج ہوٹل جموں میں حضرت میاں نظام الدین لاروی کی قائم کردہ جماعت گوجر جاٹ کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں مولانا مہر الدین قمر راجوروی، چوہدری دیوان علی، محمد اسرائیل کھٹانہ، چودھری غلام حسین لسانوی، میاں محمد اکبر بجران بھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں حضرت میاں مرزا صاحب بھی حضرت میاں نظام الدین لاروی کے ہمراہ تشریف لائے۔ میٹنگ شروع ہوئی تو چودھری لسانوی صاحب نے میاں مرزا صاحب کو مشورہ دیا کہ یہ برادری کی میٹنگ ہے اس لئے آپ کچھ دیر دوسرے کمرے میں تشریف رکھیں، میاں مرزا صاحب اٹھ کر جانے لگے تو حضرت میاں نظام الدین لاروی بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ جس جماعت میں میرے پیر خانے کے لئے جگہ نہیں اس جگہ میرا بیٹھنا مناسب نہیں۔ یہ کہہ کر آپ باہر آ گئے اور آپ کےساتھ مولانا مہر الدین قمر، میاں محمد اکبر بجران اور چند دیگر رہنماء بھی اٹھ گئے جس کے بعد گوجر جاٹ کانفرنس عملی طور پر ختم ہو کر رہ گئی۔ اس واقعے سے حضرت میاں نظام الدین لاروی کی حضرت میاں مرزا صاحب سے محبت کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔   

14 اگست 1947ء کو ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی تو کشمیر میں خانہ جنگی چھڑ گئی۔ آپ نے اس جنگ آزادی میں بھی علاقہ کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ جس پر آپ کو شیرِ کرناہ کا لقب دیا گیا۔ 

1947ء کے بعد بھی آپ علاقے کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے سرگرم رہے اور سجادہ نشینی کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ آپ حضرت حاجی بابا سید نوران شاہؒ سے ملاقات کے لئے سنی بنک مری میں ان کی رہائش گاہ میں بھی تشریف لائے۔

بالآخر 1 رمضان 1374ء بمطابق 24 اپریل 1955ء کو آپ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے اور اپنے والد ماجد کے نورانی تربت سے چند فٹ کے فاصلے پر سپردِ خاک کئے گئے۔ 

رشید شاہ فاروقی نے تاریخ اولیائے نیلم میں 1957ء کو آپ کا سن وصال قرار دیا ہے جو درست نہیں۔ آپ کے بعد آپ کے فرزند حضرت میاں سرور خان اور حضرت پیر میاں  لعل  بادشاہ سجادہ نشین ہونے میاں سرور خان صاحب میاں مرزا عبدالرشید صاحب کی پہلی شادی سے بڑے بیٹے تھے اور حضرت پیر میاں لعل  بادشاہ  موہڑہ شریف بابا قاسم موہڑوی کی بڑی بیٹی کے بڑے بیٹے تھےاور نواسے اول تھے باباجی قاسم کےجو میاں مرزا عبدالرشید صاحب کے نکاح میں آئی تھیں آپ کے جانشین ہوئے  اور اپنے والد ماجد کے سامنے والے پہاڑ پر مدفون ہوئے۔ حضرت پیر میاں لعل بادشاہ کاوصال16 جنوری 2016کو ھوا آپ کو اعلحضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رح اپنے دادا جان کے سامنے والے پہاڑ پر مدفون ہیں، 

ماخذ:

1۔ متاع فقر و دانش از خوش دیو مینی

2۔ تاریخ اولیائے کشمیر وادی نیلم از رشید شاہ فاروقی

3۔ تواریخ میاں مرزا صاحب مشمولہ اشعار نظامی از حضرت میاں نظام الدین لارویؒ

4۔ کتبہء مزار

5۔ وادی کشن کنگا کی پانچ سو سالہ تاریخ کے روشن ستارے از سمیع اللہ عزیز منہاس

6۔ صدائے نیلم ستمبر  2005 ٕ



Comments

Popular posts from this blog

شجرہ شریف نقشیبندیہ دربارعالیہ کیاں شریف

 Shajar Shareef Darbar e Aliya Kayyian Shareef Download Now Book Here !!!

عرس مبارک میاں میاں عبدالرشید صاحب دربار عالیہ کیاں شریف